سائنسدانوں نے جلدی خلیات سے انسانی انڈے بنائے — کیا یہ عام ہو گا؟
ایک چھوٹا مگر اہم قدم: جلد سے بنائے گئے انڈوں کو نطفے سے تجربہ میں کامیابی ملی، مگر بڑا فاصلہ ابھی باقی ہے۔
ٹیکنیکل طریقہ
محققین نے جلد کے خلیے سے نُوکلیئس نکالا اور اسے ڈونر انڈے میں منتقل کیا — یہ وہی طریقہ ہے جو کلوننگ میں استعمال ہوا۔ پھر اضافی کروموزومز کو نکالنے کے لیے ایک عمل (mitomeiosis جیسا) اپنایا گیا تاکہ خلیہ انڈے جیسا 23 کروموزوم رکھ سکے۔
نتائج
مجموعی طور پر 82 تیار ہوتے ہوئے انڈے بنائے گئے اور انہیں IVF کے ذریعے فرٹیلائز کیا گیا۔ چھ دن بعد صرف تقریباً 9٪ ایمبریوز ویسے بنے کہ وہ آگے کے معمولی IVF مراحل کے قابل سمجھے جا سکیں، مگر کئی ایمبریوز میں خامیاں بھی دیکھیں گئیں۔
ممکنہ فوائد
اگر یہ تکنیک محفوظ اور قابلِ بھروسہ بن جائے تو بزرگ خواتین، یا ایسے افراد جن کے پاس انڈے نہیں ہیں، یا same-sex جوڑے مستقبل میں جینیاتی بچے حاصل کر سکیں گے — مگر یہ ابھی دور کی بات ہے۔
سب سے بڑا چیلنج
اہم مسئلہ ہے کہ جن انڈوں کو بنایا جاتا ہے وہ جینیاتی طور پر درست ہوں — یعنی صحیح تعداد اور معیاری کروموزومز۔ یہی بنیادی رکاوٹ ہے۔